شاید اس کی بیٹیاں بدکار تھیں:میری نسلیں ویران ہوگئیں‘ میری سوچیں اداس ہوگئیں‘ مجھ سے میرے عزیز واقارب نے ملنا چھوڑ دیا ‘ہر شخص مجھ پر انگلی اٹھاتا ہے لوگ سمجھتے ہیں شاید اس کی بیٹیاں بدکار تھیں اور خودبخود گھر سے نکل گئی ہیں اور یہ ڈھونگ رچاتے ہیں کہ کوئی شریر جادوگر ان کی بیٹیاں اٹھا کر لے گیا ہے۔ کوئی ہماری بات ماننے کوتیار نہیں کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ‘کوئی ہمیںملنے اور دیکھنے کو پسند نہیں کرتا۔ ہم کہاں جائیں؟ وہ جننی چیخی‘ اس نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور کہنے لگی: اےخدا! یا آسمان ہمارے اوپر توڑ دے یا زمین پھاڑ دے ہمارا سارا خاندان نگل جائے اور ہم زمین میں دفن ہوجائیں‘ ہم اس دنیا میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہمیں مدد دے‘ ہماری مدد کر‘ میری بیٹیاں مجھے مل جائیں‘ میرے سروں کے تاج اورمیرے سروں کی عزتیں مجھے واپس مل جائیں۔ مجھے میرا کھویا ہوا وجود مل جائے‘ وہ عورت روئے جارہی تھی‘ سسک رہی تھی‘ تڑپ رہی تھی‘ ظالم جادوگر جن کی طرف اس کے ہاتھ اٹھتے تھے اس کی مٹھیاں بھینچتی تھی‘ غصہ تھا‘ غم تھا‘ نفرت تھی اور وہ مسلسل اسی غصے غم اور نفرت میں تڑپ رہی تھی۔ حالات بتارہے تھے کہ اگر اس عورت کو کچھ دے دیا جائے تب بھی یہ راضی نہیں ہوگی۔ اسے صرف جادوگر چاہیے اس کے جسم کے ٹکڑے چاہئیں اس کا غم درد اور نفرت بتارہی تھی کہ اگر اس جادوگر کا کلیجہ بھی اس کو دے دیا جائے اس کو چبا کر پیس کر رکھ دے۔عزت‘ سکون ختم: وہ عورت مزید کہنے لگی بادشاہ سلامت میرے گھر میں رزق لٹ چکا ہے‘ بیماریوں نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں‘ حسرتیں بڑھ گئی ہیں‘ تنہائیوں کے پہاڑ بہت اونچے ہوگئے ہیں‘ میرے تین بیٹے برسرروزگار تھے‘ دو بیٹے پڑھ رہے تھے تینوں کا روزگار کیسے ختم ہوا‘ کس طرح ختم ہوا تینوں لٹ گئے‘ برباد ہوگئے اور تینوں ویران ہوگئے‘ تینوں تنہائیوں میں چلے گئے اور وہ تینوں زندگی کے دن رات کھو بیٹھے۔ میں بہت پریشان ہوں میرے گھر کا رزق گیا ‘میرے گھر کی عزتیں گئیں میرے گھر کا سکون گیا میری زندگی کا چین گیا میں معاشرے سے کٹ گئی۔ کعبہ شریف کے اندر چالیس دن کا چلہ:جنات کی بستیوں کی بستیاں مجھ سے دور ہوگئیں خود میرے ماں باپ مجھ سے نفرت کرنے لگے‘ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس نے اپنی بیٹیوں کی نگرانی نہیں کی اور اس کی بیٹیاں بدچلن ہوگئیں اور گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکال بیٹھیں۔ میں کیا کروں؟ مجھے انصاف چاہیے‘ وہ جننی مزید کہنے لگی: میں نے اس کے جادو کے توڑ کیے‘ بہت بڑے بڑے خودکالے جادو کے عاملوں کے پاس گئی‘ وہ انسان بھی تھے اور جنات بھی تھے‘ جنات زیادہ تھے ایک جن نے مجھے جو کہ خود بہت بڑا عالم ہے ایک بات کہی کہ اس کا جادو اس کا عمل کوئی نہیں توڑ سکتا ہاں ایک شخص وہ توڑ سکتا ہے جس نے کعبہ کے اندر بیٹھ کر چالیس دن عبادت کی اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کعبہ کا دروازہ تو بہت مدت کے بعد کھلتا ہے اور چالیس دن عبادت کرنے والا اس دنیا میں کیسے ملے گا۔ بس مجھے اس جادوگر نے یہی بات کہی ورنہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو جادوگر اس جادو پر ہاتھ ڈالتا اس کا خود نظام خراب ہونا شروع ہوجاتا‘ اس کے معاملات خود بخود بگڑنا شروع ہوجاتے ۔ اس کی زندگی میں ویرانی‘ پریشانی‘ بیماریاں آجاتیں‘ وہ خود دکھ اور درد کا مجموعہ بن جاتا۔ تباہ کن نظام:وہ تھوڑی پریشانی سے بڑی پریشانی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ‘وہ دکھوں سے مزیددکھوں کی طرف امڈتا چلاجاتا‘ ہروقت اس کا نظام تباہ کن ہوتا جاتا‘ وہ پریشان اور ہروقت مایوس رہنا شروع ہوجاتا۔ حتیٰ کہ وہ عامل میرا علاج چھوڑ دیتا اور اپنی میں پڑجاتا‘ نامعلوم اس کالے جادوگر کو کیسے پتہ چل جاتا کہ ہم نے اپنا علاج شروع کردیا ہےیا کسی عامل کے پاس جانا شروع ہوگئے ہیں۔یمنی نیک عامل: تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک مسلمان نیک عامل کے پاس میں یمن میں گئی‘ وہ ایک مسجد کے کونے کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھے اللہ اللہ کرتے جاتے‘ صرف روزانہ عصر سے مغرب لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں‘ میں لمبا سفر کرکے ان کے پاس پہنچی‘ میں نے جاکر انہیں سارا حال سنایا‘ میرا حال سننا تھا کہ وہ رونے لگے ان کے آنسو نہیں تھمتے تھے۔ فرمانے لگے مجھے پینسٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیامیں لوگوں کے دکھ درد اور پریشانیوں میں ان کاساتھ دے رہا ‘اللہ ان کی پریشانیاں حل کردیتا‘میں نے غم کی بہت کہانیاں اور درد کے بہت واقعات سنے لیکن کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو اس دکھ سے زیادہ دکھی‘ اس غم سے زیادہ غمزدہ ہو اور اس
تکلیف سے زیادہ پریشان کوئی ایک بھی نہیں ملا جس کا غم اتنا بڑا غم ہو‘ اور جس کا دکھ اتنا بڑا دکھ ہو اور جس کی تکلیف اتنی بڑی تکلیف ہو۔ گندگی اور پیشاب میں لتھڑا جن: انہوں نے اپنے روحانی استخارے میں جب معلوم کیا وہ ہاتھ روک کر بیٹھ گئے کہنے لگے بیٹا یہ گندگی اور پیشاب کا لتھڑا ہوا ایک جن ہے جس پر ہاتھ ڈالنے سے میں خود گریز کررہا ہوں کہ یہ اتنا بڑا شیطان ہے کہ میری روحانیت اورعبادات پر رکاوٹیں ڈالے گا اور مجھے تکلیف دینے میں یہ گریز نہیں کرے گا اور میرے غم بڑھا دے گا‘ لہٰذا میں کبھی بھی یہ نہیں کروں گا۔ میں آپ سے معذرت چاہتا ہے‘ وہ بار بار مجھ سے معافی مانگ رہے تھے کہ میں کسی بھی شکل میں اگر مجھ سے کچھ ہوسکتا تو ضرور میں آپ کا ساتھ دیتا لیکن میں معذور ہوں یا مجبور‘ بس مجھے معاف کردیں۔بس مجھے میری بیٹیاں چاہئیں:وہ بوڑھی عورت اپنے غم بتارہی تھی اور کہہ رہی تھی بس مجھے میری بیٹیاں چاہیے اس کے بعد اس ظالم کو قتل کردیا جائے‘ آپ جلاد کو حکم دیں وہ ابھی ٹھہر جائے ابھی تو اور لوگوں نے اپنے واقعات غم کی کہانیاں اور مشکلات کی داستانیں سنانی ہیں‘ کیا دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جس نے کعبہ کے اندر چالیس دن عبادت کی‘ کیا دنیا میں کوئی ایسا فرد نہیں جواس ظالم کا کوئی توڑ کرسکے‘ وہ رو رہی تھی‘ سسک رہی تھی اور سسکتے سسکتے وہ نیچے گرگئی‘ لوگوں نے اس کو اٹھایا لیکن پتہ چلا وہ تو فوت ہوگئی ہے‘ وہ مر گئی ہے اور بیٹیوں کا غم سینے میں لیے خود اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہے تو پورے مجمع میں کہرام مچا‘ بادشاہ کھڑا ہوگیا خود موقع پر پہنچا بادشاہ نے اسے دیکھا وہ خاتون دم چھوڑ چکی تھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کا نقاب اترا نہیں تھا اس کے جسم پر چادر ڈالدی گئی اس کے بیٹے فوراً اس کو اٹھا کر لے گئے‘ پورے مجمع نے پہلی مرتبہ بادشاہ کو تڑپ کر روتے دیکھا۔دل کے دورے میں مبتلا:میرا خیال ہے اگر یہ غم آج کے کمزور دل ڈیپریشن اور ٹینشن اور مارے ہوئے انسانوں کو سنائے جاتے اور وہاں شاہ جنات کی نگرانی روحانی حصار اور کڑا نہ ہوتا تو کئی لوگ دل کے دورے میں مبتلا ہوجاتےاور انہیں ہارٹ اٹیک ہوجاتا۔ جتنا غم‘ جتنی تڑپ‘ جتنی آہ و فغاں اور جتنا زارو قطار رونا‘ آنسوؤں کا سمندر‘ ہچکیوں کا سیلاب اور دردوں کا پہاڑ اس وقت موجود تھا شاید ہی کوئی درد بھرا انسان اس کو سنبھال سکتا۔شہنشاہ جنات کی دبنگ آواز: ہر شخص فکرمند تھا اور پریشان تھا اے کاش! اس کا درد سنا جاتا اور اس کا غم بھی بیان ہوتا‘اس کی بھی ببتا سنتا شاید اس کی دردوں کا مرہم ہوجاتا ‘ہر شخص اپنی چیخ و پکار میں تھا اپنی فریاد میں تھا‘شور بڑھ گیا‘ ہنگامہ بڑھ گیا کہ
اسی دوران میں جنات کے شہنشاہ نے اپنی گرجدار اور دبنگ آواز میں سب کو خاموش کرایا‘ آواز ہی کیا تھی اور اس میں طاقت ہی کیا تھی کہ ایک پل میں خاموشی اور سناٹا چھا گیا۔ خاموشی کے بعد شاہ جنات نے کچھ الفاظ کہے جن الفاظ کو شاید کوئی اگر درد بھرا انسان سنتا یا بیہوش ہوجاتا یا مر جاتا کیونکہ ان لفظوں میں درد سوز اور گداز اتنا تھا کہ میں خود بیٹھا زارو قطار رو رہا تھا اور میں خود بیٹھا اس درد کو محسوس کررہا تھا کہ یہ درد کیسا ہے؟ یہ سوز کیسا ہے؟ یہ آوازیں کیسی ہیں؟ بادشاہ نے جو تقریر کی وہ قارئین غور سے پڑھیں اور توجہ سے سنیں:۔شاہ جنات کی تقریر:شاہ جنات مخاطب ہوئے اور فرمایا:اے لوگو! تم جانتے ہو مجھ سے پہلے میرا والد اس تخت پر تھا اور میرے والد نے سات سو چوہتر سال حکومت کی ہے‘
میں اپنے والد کا وارث ہوں‘ اور اس وقت اپنےتخت پر بیٹھے مجھے دو سو تیرہ سال ہوگئے ہیں تم جانتے ہو میں نے کبھی خیانت نہیں کی‘ بددیانتی نہیں کی‘ کسی کو درد نہیں دیا‘ کسی کو دکھ نہیں دیا۔جواہرات سے بھرے سات خچر: تمہارے سامنے اس وقت وہ لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے میرے دادا اور پڑدادا کو بھی دیکھا ہے‘وہ جانتے ہیں کہ میرے دادا کے ساتھ ایک واقعہ ہوا تھا ایک انسان سات خچر جواہرات کے بھرے جارہا تھا ایک جن انسانی شکل میں ڈاکو بن کر اس کو لوٹنے لگا‘ یہ قدرت کا راز ہے کہ اچانک میرے دادا یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے کہ وہ قدرتی ان راہوں سے اپنے شاہی قافلے کی شکل میں گزر رہے تھے‘ انہوں نے اس انسان کی بے بسی دیکھی جس کو تہہ زمین سے یہ خزانہ ملا تھا وہ پرانے شاہی کھنڈرات سے یہ خزانہ بھر کر لارہا تھا‘ اس نے ایسا کیا کہ نیچے سونے جواہرات کی تہہ لگائی اور اوپر اس نے کوئلے بچھا دئیے تھے تاکہ ہر شخص یہ سمجھے کہ یہ کوئلہ بھر کر لے جارہا ہے لیکن چونکہ جنات یہ حس رکھتے ہیں اور یہ طاقت اور قوت رکھتے ہیں اس لیے اس جن نے انسانی شکل میں آکر خنجر سے اس کو قتل کرنا چاہا اور اس سے یہ مال لوٹنا چاہا حالانکہ مال اس کا حق تھا کوئی بھی خزانہ زمین سے اس وقت تک برآمد نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ کےا مر اور حکم سے اس کے اوپر سے جنات کی لگی ہوئی ڈیوٹی ہٹا نہ دی جائے اور جنات جو اس پر مسلط ہوتے ہیں وہ وہاں سے فارغ نہ کردئیے جائیں۔ حفاظت کا نظام:لوگو! آپ جانتے ہو کہ جنات کو اللہ نے طاقتیں اور قوتیں دی ہیں پھر ان کی حفاظت کا نظام رکھا گیا ہے جس وقت میرا اللہ چاہتا ہے ہوجاتا ہے اور ان کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے اور جس وقت میرا رب نہیں چاہتا تو ان کی ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے لوگو !میرے دادا نے بھی انسانی شکل اختیار کی اور ایک خچر پر بیٹھ کر تلوار لہراتے ہوئے وہاں نمودار ہوئے جب اس ڈاکو جن نے یہ منظر دیکھا تو وہ پہچان نہ سکا کہ یہ کوئی انسان ہے یا جن۔انسانی اور جناتی وار: اس نے تو پہلے اس پر وار کیے انسانوں والے لیکن انسانوں والے تمام وار میرے دادا ایسے سہہ گئے جیسے کہ پتھر پر پانی گرتا ہے اور پتھر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ پتھر دھل جاتا ہے بس یہی نظام وہاں تھا اس کے بعد وہ ڈاکو جن اپنے ڈاکے کو بچانے کیلئے جناتی داؤ پرآگیا اس کو یہ خبر ہی نہیں تھی کہ میرے سامنے خود میرا بادشاہ ہے‘ شہنشاہ ہے اور جدی پشتی گزشتہ انیس نسلوں سے جنات کا بادشاہ ہے۔خطرناک جناتی لڑائی:جب وہ اپنے جناتی داؤ پر آیا اور جناتی داؤ اس کو بہت آتے تھے میرے دادا نے مجھے یہ بات خود بتائی تھی کہ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ وہ ڈاکو جن دراصل جادوگر بھی تھا شہنشاہ جنات تمام مجمع سے بات کررہے تھے اور مجمع سناٹے میں یہ ساری باتیں بہت زیادہ توجہ سے سن رہا تھا اور سناٹا کچھ ایسا تھا کہ جیسے چیونٹی کے چلنے کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔
جادوگر جن کا جادوئی وار:شہنشاہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا کہ لوگو! میرے دادا نے اس جادوگر جن کا جادوئی وار نہ صرف برداشت کیا بلکہ اسے کلام الٰہی کے ایک خاص لفظ سے جو کہ میرے دادا کے دادا نے انہیں سکھائے تھے اس وار کو خطا کیا اور راکھ بنا دیا۔ جادوگر جن حیران کہ کیسے ممکن ہوا؟ اور یہ کیسے حیرت انگیز طور پر میرا وار خطا گیا۔ وہ ایک نیا وار لایا اور اس نے نئے وار سے ایک بہت بڑا آگ کا شعلہ پھینکا اس آگ کے شعلے سے اتنی طاقت ور آگ نکلی اور اس کی اتنی طاقتور چنگاڑیاں تھیں شاید آج کی ایٹمی ا ٓگ بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے وہ ایک میل لمبی اور تین میل کشادہ بہت بڑی آگ تھی‘ اس کا نقصان یہ ہوا کہ قریب کے جتنے درخت‘ سبزہ اور شاخیں پتے سب جل گئے اگر وہاں قریب کی آبادی ہوتی تو وہ راکھ اور خاک ہوجاتی لیکن یہ سب وار بھی میرے دادا کی ایک پھونک سے خالی گئے یعنی جب انہوں نے پھونک ماری تو ان کی پھونک سے ٹھنڈی بھاپ نکلی اور اس ٹھنڈی بھاپ نے اس سارے کے سارے جادو کو ایک پل میں ختم کردیا اور وہ آگ بادل بن گئے اور بادل بن کر ساتھ ہی ایک بہت بڑا گڑھا تھا اس پر برسی اور وہ صدیوں پرانا پڑا ایک گہرا گڑھا جھیل بن گیا اور یہ جھیل آنا فاناً ایسی بنی کہ گمان ہی نہیں تھا کہ یہاں آج تک پانی تھا ۔پتھروں کی بارش:جب اس جادوگر جن نے اپنا یہ وار بھی مایوس کن حد تک خطا دیکھا تو اس نے اپنا ایک اور طاقتور وار کیا اس نے اپنے طاقتور وار سے یکایک پہاڑوں کے پتھر منگوائے یہ پتھر نہیں تھے بلکہ بڑی بڑی چٹانیں اور اور ان میں کوئی پتھر بھی ایسا نہیں تھا کہ جو دس بیس من سے کم ہو اور وہ پتھروں کی پوری بارش تھی اور وہ بارش ایسی تھی کہ جو اگر کسی انسان کو ہلکا سا چھو بھی جاتی تو اس کا قیمہ بن جاتا بلکہ وہ راکھ ہوجاتا۔ سچائیوں اور صداقتوں کے رہبر: لوگو! شہنشاہ جنات نے تمام مجمع کو متوجہ کرتے ہوئے کہا یہ واقعہ جو میں اپنے دادا کا سنا رہا ہوں آج بھی اس کے گواہ موجود ہیں ہمارا خاندان سچائیوں اور صداقتوں کا ہمیشہ رہبر اور رہنما رہا ہے‘ ہمارا خاندان دیانتوں اور صداقتوں کا ہمیشہ پیروکار رہا ہے ہمارا خاندان مخلوق خدا کی راحتوں اور خوشیوں کو بانٹتا رہا ہے میرے دادا پڑدادا اور میرے بڑے آج تک لٹیرے نہیں رہے بلکہ رہبر رہے ہیں‘ چور نہیں رہے بلکہ دوست اور محافظ رہے ہیں۔ لوگو! جب اس جادوگر جن نے پتھروں کا وار کیا تو میرے دادا نے اچانک علم الٰہی اور کلام الٰہی سے اس کا رد کیا اس کا رد ایسے کیا کہ انہوں نے ایک تیز ہوا چلائی اور تیز ہوا ایسی طاقتور تھی جنہوں نے پتھروں کے رخ موڑ دئیے اور بڑے بڑے پتھروں کو چھوٹے پتھروں میں اور چھوٹے پتھروں کو کنکروں میں اور کنکروں کو ریزوں میں اور ریزوں کو ذروں میں تقسیم کردیا اور وہ تقسیم ایسے ہوئی کہ پتھروں کا آیا ہوا تمام طوفان ایک پل میں ہواؤں میں تحلیل ہوگیا اورجہاں سے پتھر آئے تھے واپس اسی طرف پلٹ گئے۔میںایک چوکیدار ہوں! جب جادوگر جن اپنے تین خطرناک ترین وار کرچکا تو ایک پل کیلئے ٹھٹک گیا اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ یہ سارا منظر دیکھنے لگا اور بولا: تو کون ہے؟ اس کے لہجے میں بے ادبی گستاخی اور بغاوت تھی